Thursday 5 November 2015

اختتام ۔ عبدالباسط سید

اختتام ۔ عبدالباسط سید
یونیورسٹی کے آخری سال کی آخری کلاس جاری تھی۔ وہ اپنی بے فکر چال اور مست اداؤں کے ساتھ حسب معمول پندرہ منٹ تاخیر سے لیکچر روم میں پہنچا ہی تھا کہ اسکی نگاہ پروفیسر عامر سے ٹکرایٔ جنکی عمر جوانی اور بڑھاپے کے وسطی بھنور میں تھی۔ پروفیسر صاحب نے اسکے تواتر سے سفیدی پکڑتے بے نیاز بالوں ، سلوٹ زدہ لباس اور ان آنکھوں کی طرف غور سے دیکھا جنکے گرد سیاہ حلقے وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرے ہوتے چلے گیٔے تھے۔ انہوں نے شفقت آمیز مسکراہٹ سے وہی سوال دہرایا۔
ہاں بھٔی! میرے ادیب وہی آنکھوں میں اجاڑ پن  لیئے آن پہنچے ہو؟
’’ اجڑی آنکھوں کو رایٔگاں نہ سمجھیٔے
  ان میں خوابوں کے شہر ہوتے ہیں ‘‘
پروفیسر عامر جو اسکے کسی جواب کی توقع کی توقع نہیں کر رہے تھے اسکی بات سن کر چونک اٹھے۔ پچھلے دو سالوں میں پہلی بار اس نے اپنے متعلق کسی بات کا جواب دیا تھا۔
’’ دعا ہے تمہارے خوابوں کے شہر سلامت رہیں ورنہ اکثر ساری عمر ان خوابوں کے تاوان بھرتے بھرتے گزر جاتی ہے۔‘‘
جواب میں اسکی مدہم مسکراہٹ تھی جسکے پیچھے گہرے فکر کے ساۓ نمایاں تھے۔
اسی دن وہ اپنے سپنوں کاگھروندا لیئے مادی دنیا کے ظالم اصولوں کا اپنی معصومیت سے مقابلہ کرنے چل نکلا۔ علم و ادب کے سوا اسے نہ کچھ آتا تھا نہ ہی کچھ کرنے کی خواہش تھی۔ اسکا پہلا ناول مظلوم قبیلے اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ اسکا مسودہ پبلشر کو بہت پسند  آیا۔ ایک شام اچانک پبلشر نے امر زیدی کو فون کیا۔
’’واہ بھٔی زیدی صاحب! کیا خوب کہانی باندھی ہے۔ آپ جیسے ابھرتے ہوۓ لکھاری ہی ادب کا سرمایہ ہیں۔ بس ہم کل شام ہی آپ  سے چاۓ پینے کی غرض سے آرہے ہیں۔ باقی معاملات ملکر طے کر لیتے ہیں۔‘‘
امر زیدی کی سماعتوں میں وہ الفاظ رس گھول رہے تھے۔ ’’ خوب کہانی، ادب کا سرمایہ، باقی معاملات‘‘
’’ باقی معاملات؟؟؟‘‘
ان دو الفاظ نے اسے قدرے مایوس کردیا لیکن اسکے کمرے کے بند کواڑ سے امید کی کرن ہلکی سی روشنی کے ساتھ داخل ہوکر اسکے سپنوں کو نیٔ زندگی عطا کر رہی تھی۔
وہ صبح سے اپنے بوسیدہ کمرے میں چکر کاٹتے کاٹتے کیٔ میلوں کا سفر طے کر چکا تھا ۔ ہر بڑھتا قدم اسے اپنی منزل کے قریب لیجاتا مگر ہر گزرتا پل اسے انجان وسوسوں کی دلدل میں بے رحمی سے گھسیٹ لیتا تھا۔ بند دروازے کے اس پار ہلکی سی آہٹ بھی اسکی دھڑکنیں بے ترتیب کرنے کیلئے کافی تھی۔ انتظار کی اذیت نے بڑھ کر ایسی جہنم کا روپ دھار لیا تھا جسمیں وہ بظاہر مزے سے ٹہل رہا تھا۔ تھک ہار کر وہ اس آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا جو کسی زمانے میں آرام و سکون کیلئے بنایٔ گیٔ ہوگی مگر اب بس اس پر کرسی کے نام کی تہمت ہے۔ اس نے کمرے میں نگاہ دوڑایٔ جہاں کتب کا ذخیرہ موجود تھا۔ اور یہ کتب اسے ہر رشتےاور ہر خواہش سے عزیز تھیں۔ آخر کار وہ شام جسکا اسے شدت سے انتظار تھا، آن پہنچی۔
دروازے پر مہینوں بعد ہلکی سی دستک ہویئ تو اسے ایسے لگا کہ آج اسکے در پر کسی انجان جزیرے کا انتہایٔ رحم دل بادشاہ دستک دے رہا ہے جسکے پیچھے غلامان کی لمبی قطاریں ہیں جو اسے انعام و اکرام نوازنے کی منتظر ہیں۔ اس نے کسی فاتح کیطرح دروازے کیطرف قدم بڑھاۓ اور دروازے کے پٹ کھول دیئے۔ پبلشر عارف عالی صاحب اندر داخل ہوۓ اور اسے گلے لگا لیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انہوں نے اپنے بیٹھنے کیلئے جگہ بنایٔ اور امر زیدی چاۓ لینے چلا گیا۔ 
اس نے عارف صاحب کو چاۓ پیش کی اور انتہایٔ مؤدبانہ طریقے سے انکے سامنے بیٹھ گیا۔ چاۓ کا گھونٹ لیتے ہی عارف صاحب گویا ہوۓ ’’ تم تو شہرت کی ہر بلندی فتح کرنے والے ہو۔ میں تو تمہارے فن کا مداح ہوگیا ہوں۔  تمہاری تصنیف کی کمپوزنگ بھی مکمل ہوچکی ہے۔ کچھ  پیشگی رقم ادا کردوتاکہ ہمارا کام بھی چلتا رہے۔ آخر کاروبار کو بھی تو دیکھنا پڑتا ہے‘‘
’’ جی کتنا دینے ہونگے‘‘
ویسے تو اتنے صفحات کی تصنیف کا ہم پینتالیس ہزار لیتے ہیں لیکن تم تیس ہزار دےدو‘‘
پبلشر کیلۓ ہزاروں کی بات کرنا معمولی بات تھی لیکن اس ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس سے ایسی سلطنت کا تقاضا کیا ہو جوکبھی اسکی دسترس میں آ ہی نہیں سکتی۔اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا اسکے لیئے ممکن ہی نہ تھا۔ چند ٹیوشنز کی کمایئ سے وہ زندہ رہنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ اسکی خاموشی سے پبلشر کو جواب مل گیا تھا۔ 
’’ زیدی صاحب دل گرفتہ نہ ہوں۔ آپکو ایک مشورہ دوں؟‘‘
زیدی نے سوالیہ نظروں سے پبلشر کودیکھا!
’’ ایسا ہے کہ آپ اپنا ناول بیچ دیں۔ کیٔ نام نہاد ادیب خریدنے کو تیار ہیں۔ اور کچھ رقم بھی دینگے جس سے آپکے مالی معاملات بھی ٹھیک ہوجایٔنگے۔ ذرا سوچ کر بتایٔگا۔ ‘‘
عارف صاحب رخصت ہوگئے اور اسے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے اسے اسکے سپنوں سمیت دفن کردیا ہو۔
اگلے دن اسکے دروازے پر دستک ہویٔ اور اس نے بے دلی سے دروازہ کھولا۔  ایک شخص  اسے ایک لفافہ دیکر چلا گیا جسمیں دس ہزار کا چیک تھاجو اس نے چپکے سے قبول کرلیا۔ 
فکرِ معاش تو چند دن کو ٹل گیٔ تھی لیکن ضمیر مسلسل ملامت کر رہا تھا۔ دو ماہ تک جیب پھر ہلکی ہوگیٔ تھی۔ بھوک کی شدت  اسقدر بڑھ گیٔ تھی کہ ہاتھوں میں اتنی سکت نہ رہی رہی کہ وہ کسی خیال کو اوراق پر منتقل کر سکتا۔ تنگ آکر اس نے چھ ماہ پرانا اخبار اٹھا لیا۔ ادب پر مشتمل صفحہ کا پہلا مضمون تھا ’’ کتاب انسان کی بہترین ساتھی‘‘۔
ایک گھٹیا خیال اسکے ذہن نے اگل دیا تھا۔ اس نے اپنے اردگردبکھری کتب کو دیکھا اور خاموش ہوگیا۔
شام کو وہ اولڈ بک سٹور پر موجود تھا جہاں اس نے پروین شاکر کی تصنیف ’’  خوشبو‘‘ کو نیلام کردیا اور پیٹ کی آگ بجھانے کا ساماں کیا۔ پھر آنے والے ہر دن میں کبھی اقبال،محسن، منٹو، فیض کی تخلیقات اسکی بھوک مٹانے کا سبب بنیں۔
رفتہ رفتہ اسکے کمرے سے کتابیں رخصت ہوتی گئیں اور مزید تنہایئ کا شکار ہوتا چلا گیا۔آخری کتاب بیچ کر اخبار اور چند سگریٹ لیکر وہ واپس اپنے کمرے کو لوٹ آیا۔ سگریٹ جلا کر وہ اخبار کا سرسری مطالعہ کرنے لگا۔ علم و ادب کے صفحے پر اسکی نظر ایک خبر پر پڑی اور اسے شدید جھٹکا لگا۔ 
’’ مشہور پبلشر عارف عالی صاحب کی پہلی تصنیف ’’ مظلوم قبیلے‘‘ ایک عہد ساز کتاب۔ حیرت انگیز ناول آدم جی ادبی ایوارڈ کیلیئے نامزد۔ یہ خبر پڑھتے ہی ایک تلخ مسکراہٹ اسکے چہرےپر نمودار ہویٔ اور وہ بڑبڑایا ’’آدم جی ادبی ایوارڈ‘‘ ۔ اس کتاب کو لکھتے ہوۓ اسے شب و روز کی محنت، بھوک کی اذیت سب یاد آنے لگا۔ اس نے رونا چاہا مگر آنسو بیوفایٔ پر اتر آۓ۔ اسنے آ خری سگریٹ سلگایا۔ اسکے کش لیتے ہوۓ وہ بکھرتے ہوۓ دھویٔیں میں اپنی زندگی تحلیل ہوتے دیکھتا رہا۔ اس نے  آخری کش کے ساتھ ہی گہرا سانس لیا اور سانس اٹک گیا۔ اسے پروفیسر عامر وہ جملہ یاد آیا ’’ ورنہ اکثر ساری عمر ان خوابوں کے تاوان بھرتے بھرتے گزر جاتی ہے‘‘۔ اور پھر سانس بحال ہوا اپنے حتمی اختتام کیلیٔے۔
عبدالباسط سید
بحوالہ گزٹ جی سی یو لاہور۔ مارچ۔اپریل ۲۰۱۴

No comments: