Saturday 31 October 2015

Open letter to Imran Khan by a former Election Commission of Pakistan's employee

ڈیئر عمران خان! 
میں سیاسیات و تاریخ کا ایک ادنی طالب علم اور آپکا ایک جذباتی سپورٹر ہوں جو ہر روز بغیر کسی مالی اور دیگر فائدہ کے سوشل میڈیا پر بھر پور آپکی حمایت کرتا رہتا ہے (کیونکہ میں پاکستان سے باہر رہتا ہوں)۔ جب آپ نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی میں ان دنوں سے پارٹی کا حامی ہوں۔ مگر اسوقت میں پڑھ رہا تھا اور طالب علموں کی سیاست سے دوری کو پسند کرتا تھا اس لئے آپ کو عملی طور پر سپورٹ نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے جی سی لاہور میں ہماری ایم فل سیاسیات کی کلاس کے دوران ہمارے عظیم استاد پروفیسر جاوید شیخ بھی آپکی تعریف کیا کرتے تھے۔ جس سے مجھے حوصلہ ہوتا تھا کہ آپ سے میری اور میرے دوستوں کی توقعات محض ایک نوجوانوں کا ذہنی خیال نہیں بلکہ اسمیں ایک حقیقت ہے۔
پھر میں الیکشن کمیشن میں بطور الیکشن آفیسر کام کرنے لگا اور آپکو کھل کر سپورٹ نہیں کر سکا مگر میرے دوست جانتے ہیں میں آپکی جماعت سے توقعات رکھتا تھا۔
دو ہزار نو میں میں نے الیکشن کمیشن سے کچھ ذاتی اور بہت سی انتظامی کمزوریوں اور کرپشن کی وجہ سے احتجاج کرتے ہوئے سات صفحات پر مشتمل استعفے دیا کیونکہ اسوقت مجھے لگا الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے ایک ایسا محکمہ بن چکا ہے جو ایک کورئیر سروس ہے اور چند افراد کی اچھی آمدن و ریٹائرمنٹ الاونس کا زریعہ ہے۔ میں نے تین سالہ سروس کے دوران اپنے افسران کو ذمہ داریوں سے اسطرح گھبرائے دیکھا جیسے بچہ آگ چھونے کے بعد ڈر کر دور ہو جاتا ہے اور آگ کے قریب آنے سے کتراتا ہے۔
میں نے دو ہزار گیارہ میں پی ٹی آئی کی باقاعدہ ممبرشپ لی اور آپکے نعرے اور اصولی موقف کی اپنے حلقہ میں ہمیشہ کھل کر حمایت کی۔ مجھے آج بھی آپکی مینار پاکستان پر کی گئی تقریر یاد ہے۔ مجھ سمیت میرے کئی اوورسیز پاکستانی دوست آپکو ایک بڑا لیڈر مانتے ہیں اور آپکی بات کی تائید کرتے رہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی پاکستان میں صرف آپ کی قیادت سے اچھی توقعات رکھتے ہیں۔
آپ نے جب میرٹ اور انصاف کا نعرہ لگایا تو لاکھوں پاکستانیوں نے لبیک کہا۔ مگر جوں جوں دو ہزار تیرہ کے انتخابات قریب آتے گئے۔ مجھ سمیت کئی سپورٹرز نے محسوس کیا کہ وہی خاندان جنکے لوگ پچھلے ساٹھ سال سے پاکستان کو لوٹ رہے ہیں ۔ میرٹ کی دھجیئاں بکھیرتے چند دنوں کے اندر ان لوگوں سے آگے آنا شروع ہوگئے جن لوگوں نے اپنی تکالیف کے بل پر پارٹی کو بڑھنے میں مدد کی اور ایسے پرانے لوگ شرافت۔ دیانت اور قابلیت میں ان پیشہ ور سیاستدانوں سے بہت بہتر تھے جو موقع پرستی اور وقت کی مناسبت سے پارٹی کی طرف کھچے چلے آرہے تھے۔ ہم نے اس کو بھی ایک انتخابی سیاست کی حکمت عملی سمجھ کر سپورٹ کیا۔ کیونکہ اسکی وجہ سے مخدوم شاہ محمود اور جہانگیر ترین جیسے اہم اور قابل سیاسی راہنما بھی پارٹی میں شامل ہوئے جن سے پارٹی کو یقینی فائدہ ہوا جو اچھی بات تھی۔
اسوقت جب الیکشن کی مہم چلائی گئی تو بھی لگ رہا تھا پارٹی انتخابی سیاست کے داو پیچ سے بہت پرے ہے اور جذباتی نعروں کی آواز عملی سیاست سے اونچی ہے۔ تاہم اہم بات یہ تھی کہ آپکا نعرہ پاکستانی حالات اور کرپشن کے درمیان میں مروجہ آیئن کے تحت رہتے ان سب چوروں اور لٹیروں کو باہر کرنے کا تھا کیونکہ پاکستان میں اچانک امریکہ اور برطانیہ جیسی شہری و سماجی بیداری لانا تو ممکن نہ تھا۔
انتخابات کے نتائج یقینی طور پر پاکستان کے عوام کی رائے کا آئینہ دار نہ تھے اور خیبر پختون خواہ کے علاوہ پارٹی برے طریقے سے ہار گئی۔میں نے انتخابات کے دوسرے دن پارٹی کو چھوٹی سی رقم ڈونیٹ کی تاکہ پارٹی عہدہ داروں کو پیغام جائے کہ ہم اب بھی پارٹی پر اعتماد کرتے ہیں۔ اسوقت میرے سمیت بہت سے سپورٹرز کا خیال تھا کہ آپ انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ خیبر صوبے میں ایک مثالی حکومت کے عملی نمونہ کی طرف پوری توجہ مرکوز کریں گے۔ مگر آپ نے ایک اچھا موثر مگر قبل از وقت دھرنا دے دیا۔ جس میں نہ صرف خیبر صوبے میں اہم اور عملی تبدیلی کیلئے ضروری وقت صرف ہوا بلکہ کئی ایک زخمی ہوئے ۔کئی کی موت ہوئی۔ ہم سب نے اس دھرنے کی بھی بھرپور اخلاقی حمایت کی اگرچہ اس میں پاکستان کے آئین سے باہر نکل کر تبدیلی لانے کی بات کی جارہی تھی۔
اس دوران پارٹی ایک کے بعد کئی ضمنی انتخابات ہاری۔ ہماری حمایت میں پھر بھی کوئی کمی نہیں آئی اور نہ آئے گی۔ اب جبکہ آج بلدیاتی انتخابات کا ایک اور مرحلہ مکمل ہو گیا اور پارٹی حسب معمول کوئی بہتر کارکردگی دکھانے میں ایک بار پھر ناکام ہوگئی ہے۔ تو میں یہ خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
میرا مقصد کوئی تنقید کرنا نہیں بلکہ یہ شیئر کرنا ہے کہ آپکو معلوم ہونا چاہیے کہ میرے جیسے لوگ اور شہری جنکو آپکی قیادت سے توقعات ہیں کیا دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ میں یہاں کسی کی نمائندگی بھی نہیں کر رہا اور باتیں صرف میری ذاتی رائے ہے۔
میرا خیال ہے کچھ دنوں سے آپ جن ذاتی حالات سے گزرے ہیں اور ماضی میں کرپٹ نظام کے خلاف کام کرتے ہوئے آپکو جن جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ بذات خود اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ قدرت آپ سے بڑا کام لینا چاہتی ہے اور بار بار آپکو آگے بڑھنے میں مدد دے رہی ہے ۔ کیونکہ اسطرح کی ناکامی اور نا مسائد حالات ہی آدمی کو عظیم کامیابی کی طرف لیجاتے ہیں۔
میں صرف سوچتا ہوں کہ آپ کو چاہیے پہلے تو کچھ دن جلسے ۔ جلوس اور لوگوں سے دور بیٹھ کر نہ صرف آرام کریں بلکہ یہ بھی ضرور سوچیں کہ آپ کے طریقہ کار میں کہاں کہاں اور کیا کیا خامی رہ گئی ہے۔ جو مڈل کلاس پڑھا لکھا طبقہ تو آپ پر اعتماد کرتا ہے مگر ایک کمزور غریب مزدور یا دیہاتی ابھی تک آپکی پارٹی کو ووٹ نہیں دے رہا۔
آپکو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آپ نے انتخابی سیاست کو پاکستانی حالات اور کمزور و غریب عوام کے حالات کے مطابق کیسے آگے بڑھانا ہے اور کس طرح بوسیدہ اور غلیظ ہو چکے نظام میں سے آگے اگلے تین چار سال میں بڑھنا ہے۔ اسطرح کہ عام اور غریب لوگوں کو بھی مڈل کلاس کی طرح حوصلہ ملے اور وہ اگلے انتخابات میں آپکے چنے لوگوں پر اعتبار کریں۔
انتخابات کی سائنس اور آرٹ پولنگ اسٹیشن کی سیاست اور پولنگ اسٹیشن سے پہلے کی سیاست کے اپنے اپنے رخ ہیں۔ پاکستان کے بھوک سے ڈرے۔ کمزور۔ بے روزگار لوگ احساس تحفظ اور احساس طاقت چاہتے ہیں جو آپ انکو اتنی جلدی نہیں دے سکتے۔ مگر آپ پولیس ۔ تعلیم اور دیگر اداروں کے پڑھے لکھے افراد کو تو حوصلہ ضرور دلا سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ہی اصل تبدیلی کے محافظ بن سکتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں آنے والی سست تبدیلی اچھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اور دیگر صوبوں کی پولیس اور اساتذہ کو بھی انتظامیہ کی غلامی اور خوف سے نجات دلانا ضروری ہے ۔ کیونکہ الیکشن کمیشن پانچ بوڑھے لوگوں کا نہیں پورے انتخابی عملے کا نام ہے جنکی اکثریت اپنے آپ کو اس جبر والے نظام کے سامنے بے بس محسوس کرتی ہے۔
اب ضروری ہے کہ ایک تو خیبر صوبے میں نہ صرف واضح تبدیلی لائی جائے بلکہ انصاف اور احتساب کا دائرہ ملک کو کھوکھلہ کرنے والے بڑے لوگوں تک بڑھا لیا جائے۔
دوسرے ضرورت ہے کہ پارٹی کی اگلے انتخابات کیلئے تنظیم سازی کی جائے۔ اب یہ بات تو سامنے آگئی ہے کہ پارٹی کے ووٹر انہی خاندانوں کے لوگوں کو رد کر چکے ہیں جن سے وہ ساٹھ سالوں سے تنگ ہیں۔ اور یہ ٹیسٹ عوام کے ہاتھ ہو یا میڈیا کے وہ ہماری جماعت کے اچھے اصولوں کو اور زیادہ باریکی سے پرکھتے ہیں کیونکہ انکو دوسری جماعتوں کی نسبت آپ سے توقعات ہیں اور جن سے توقعات ہوں انسان اس سے گلہ بھی کرتا ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ شفافیت اور اصول پرستی کا مطالبہ کرتا ہے۔
تیسرا ضروری ہے کہ انتخابی اصلاحات کے عمل کو جلد مکمل کیا جائے جس میں الیکشن کمیشن کے ادارے کو مقامی سطح پر با اثر اور طاقتور بنانے کی ضرورت ہے اور انتخابات میں الیکشن کمیشن کی محکمانہ سطح پر انتخابی اصولوں کی خلاف ورزی کا سدباب کرنے کی طاقت کو موثر بنانے کی ضرورت ہے ۔ بجائے اسکے کہ الیکشن کمیشن میڈیا اور انتخابی امور کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں پر انحصار کرتا رہے چاہیے یہ کہ اسکے افسران کو ریٹرنگ افیسرز کی عملی نگرانی کی ذمہ داری اور اختیار دینے کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے الیکشن کا محکمہ وہ واحد محکمہ ہے جسکو اپنے ذمہ کام کی نگرانی کا عملا کوئی اختیار نہیں اور دیگر سرکاری محکموں یعنی فوج۔ عدلیہ ۔انظامیہ۔ غیر سرکاری تنظیوں اور میڈیا پر انتخابی نگرانی کا انحصار ہے۔
اسی طرح انتخابی عزرداریوں کو چھ ماہ میں نپٹانے کے قواعد وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور اگر اسطرح ممکن نہ ہو تو پہلے والے انتخابی نتائج کو برقرار رکھا جائے تاکہ وقت اور ملکی پیسے کا نقصان نہ ہو۔
اللہ آپکو آنے والے وقت میں کامیابی دے۔ آمین!
آپکی پارٹی کا ایک سپورٹر
 https://www.facebook.com/amjad.ali.52035 امجد علی

No comments: